حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ

  • Admin
  • Sep 22, 2021

تعارف:

برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ عالیہ چشتیہ ایک معروف روحانی سلسلہ ہے ۔سلطنت  مغلیہ کے دور میں جب تصوف کو عروج حاصل ہوا اورسلسلہ عالیہ چشتیہ کے بزرگوں نے اس علاقہ میں تعلیماتِ اسلام کی ترویج اور چشتیہ سلسلےکی اشاعت کی اُن میں حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ تھے جنہوں نے جہاں آباد میں چشتیہ سلسلے کی اشاعت کی ،ان کے بعد ان جانشین ولی اورنگ آبادی نے اورنگ آباد(دکن) میں اپنے مُرشد کا پیغام عام کیا ۔پھر ان کے بعد ان کے فرزند فخر الدین فخر شاہ جہاں آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے دہلی میں بیٹھ کر شمالی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے خلفاء بھیجے۔آفتاب و ماہتابِ طریقت ، واقف ِ رازِ حقیقت ، مخزنِ رُشد و ہدایت حضرت خواجہ نُور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ انہیں خلفاء میں سے ہیں جنہوں نے پنجاب میں سلسلہ چشتیہ کو فروغ دیا۔

سلسلہ نسب:

آپؒ کا سلسلہ نصب نوشیرواں عادل سے جا ملتا ہے. 

ولادت:

حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ 14 رمضان المبارک1142ہجری 1729ء کو قصبہ چوٹالہ میں پیدا ہوئے جو بہاولپور کے قریب ہے کچھ عرصہ کے بعد آپؒ کا خاندان چوٹالہ سے قصبہ مہار میں آگیا ۔آپ کے آباؤ اجداد کا پیشہ زراعت تھا ۔والدین نے آپؒ کا نام "بہیل" رکھا تھا جس کو آپؒ کے شیخ شاہ فخرالدینؒ نے بدل کر نُور محمد رکھا۔

آپؒ کی والدہ ماجدہ کو شادی سے قبل ایک کامل نے ایک ولی کی ماں ہونے کی بشارت دی تھی. ایک بزرگ نے دیکھ کر بشارت دی کہ ایک وقت آئے گا اس بچے کے آگے بادشاہ سر رکھیں گے. اس وقت کِسے معلوم تھا کہ بہاولپور کا نواب بہاول خان ان کی آستانہ بوسی کرے گا. 

تعلیم و تربیت:

والدین نے آپؒ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی، آپؒ نے پہلے قرآن مجید حفظ کیا پھر مہار شریف میں رہ کر علوم عقلیہ اور علوم نقلیہ سیکھے ۔ بعدازاں ڈیرہ غازی خاں جا کر درسی کتب پڑھیں اور پاکپتن کے نواح میں موضع بیلا کی علمی شخصیت شیخ احمد کھوکھر سے بھی تعلیم حاصل کی کچھ عرصہ بعد خواجہ محکم دینؒ کے ہمراہ تحصیلِ علم کے سلسلہ میں لاہور تشریف لائے ۔جب آپ تصوف و روحانیت کی طرف مائل ہوئے اُس دور میں دہلی میں حضرت خواجہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کا چرچا تھا ۔آپؒ دہلی تشریف لے گئے اور وہاں پر حافظ محمد صالحؒ کے ساتھ حضرت خواجہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ پر حاضر ہوئے ۔ حضرت شاہ فخرؒ نے آپؒ کو دیکھا تو مسند سے اُٹھ کر استقبال کیا ، گلے سے لگایا اور پنے ساتھ بٹھایا ۔ پوچھا : کہاں سے آئے ہو ؟ شاہ نور محمد نے جواب دیا : کہ پاکپتن کے قرب و جوار کا رہنے والا ہوں ، خواجہ فخر الدین نے پوچھا حضرت باب صاحب کی اولاد سے ہو ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں : پھر پوچھا : کس غرض سے آئے ہو ؟ شاہ نور محمد نے جواب دیا : سُنا ہے

آ پ علم ِ دین سکھاتے ہیں ، علم و معرفت کی کشش مجھے آپؒ کی خدمت میں کھینچ لائی ہے ۔ حضرت فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : آج کل پڑھانا موقوف تھا لیکن اگر آپؒ کی مرضی ہے تو ہم سے پڑھ لیا کریں ۔ اسےکے بعد شاہ نور محمدؒ نے آپ سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی ۔ چند ہی روز کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ وہ جس شخصیت کے پاس آئے ہیں وہ روحانیت کے بہت بلند مرتبہ پر فائز ہیں اور علوم و معرفت کا سمندر ہیں۔

چنانچہ آپ نے 1145ہجری 1751ء میں شاہ نور محمد مہاریؒ نے حضرت شاہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پرسلسلہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت کی ۔خواجہ صاحبؒ کو اپنے پیرو مُرشد سے حد درجہ محبت تھی اور پیر ومرشد بھی آپؒ سے بہت پیار کرتے تھے۔ آپؒ نے سولہ سال اپنے پیر ومرشد کی خدمت کا شرف حاصل کیااور فیوض و برکات حاصل کیے ۔مرشد کریم کے ساتھ پاکپتن اور مہار شریف کے ساتھ سفر کیا ۔ سفر سے واپسی پر حضرت فخر الدین نے خواجہ نور محمدؒ سے فرمایا : اے نور محمد ! آپ کے کندھوں پر مخلوق کا بوجھ پڑنے والا ہے یہ سن کر خواجہ نور محمدؒ نے حیران ہو کر فرمایا کہ میں کمترین پنجابی ہوں میں کسی کے کیا کام آسکوں گا شاہ فخرؒ خاموش رہے پھر کچھ دن بعد حضرت فخر الدینؒ دہلوی نے آپؒ کو خرقہ خلافت عطا فرما کر حکم دیا:

کہ اپنے وطن مہار شریف میں رشد و ہدایت اور تبلیغ و اشاعت اسلام کا کام کریں ۔۔اپنے پیر و مرشد کےفرمان کے مطابق حضرت خواجہ نور محمد مہاروی رحمۃ اللہ علیہ مہار میں تشریف لائے اور ارشاد و ہدایت کی ایسی شمع روشن کی جس کی روشنی سے پورا پنجاب روشن ہوگیا اور دور دور سے علم و معرفت کے پیاسے آپ کے پاس آنے لگے۔مہار شریف آمد کے بعد یہاں انہوں نے ایک خانقاہ قائم کی اور خلق خدا کی تربیت کرنے لگے. آپؒ اپنے مریدوں کی اصلاح و تربیت کی طرف خاص توجہ دیتے اور شریعت کی پابندی کا حکم دیتے تھے ۔آپ بڑے صاحب ِ کرامت تھے آپ پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا بہت فضل و کرم تھا اور جو زبان سے نکلتا پورا ہوتا تھا۔

حضرتؒ کی شہرت ہوئی تو وہاں آباد مہار قوم کے سرداروں کو اپنی سرداری جاتی نظر آئے جس کی وجہ سے انہوں نے حضرتؒ کو تنگ کرنا شروع کیا... اللہ کی طرف سے ہوا کچھ یوں کہ مہار قوم میں آپس میں خانہ جنگی ہوئی اور وہ اس علاقے میں مٹ گئی. 

حضرتؒ کا معمول یہ تھا کہ جمعہ کی نماز بابا فرید الدینؒ گنج شکر کے آستانہ پر پڑھا کرتے تھے. پھر جب علیل ہوئے  اور ضعف عمری بڑھا توچشتیاں میں ادا کرنے لگے جہاں بابا فریدؒ کے پوتے بابا تاج سرورؒ مدفون ہیں. 

 

کوہستانی باز یعنی حضرت پیر پٹھان حضرت شاہ سلیمان تونسویؒ نے حضرت خواجہ مہارویؒ سے اکتساب فیض کیا اور خرقہ خلافت سے نوازے گئے.

شاہ سلیمانؒ سے حضرت شمس الدینؒ سیالوی نے اکتساب فیض کیا جن کے ہونہار مرید فاتح قادیانیت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ ہوئے یہ سلسلہ آگے بڑھا تو علامہ یار محمد بندیالویؒ پھر علامہ عطاء محمد بندیالویؒ استاذ العلماء ہوئے۔

اس سلسلہ کو یوں سمجھ لیں. 

خواجہ نور محمدؒ

شاہ سلیمان تونسویؒ 

شمس الدین سیالویؒ

پیر مہر علی شاہؒ 

دوسری جانب حضرت خواجہ مہارویؒ کے ایک خلیفہ حضرت شاہ جمال ملتانیؒ تھے جن سے  ملتان میں سلسلہ چشتیہ کا احیاء ہوا.

اولاد:

آپؒ کی اولاد مبارکہ میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔

وصال:

علم و معرفت کا یہ آفتاب 3 ذوالحجہ 1205 ہجری بمطابق 1791ء کو غروب ہوگیا۔ آپؒ کا مزار پر انوار چشتیاں میں موجود ہے ۔ آپؒ کے روحانی خلفاء نے سلسلہ چشتیہ کی ترویج و اشاعت میں بہت اہم کردار ادا کیا اور آپؒ کے فیضان کو عام کیا۔

عرس:

ہر سال یکم تا تین ذوالحج آپؒ کا عرس مبارک بڑی شاک و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ دربار عالیہ پر تمام رسومات کی سرپرستی حضرت خواجہ غلام معین الدینؒ مہاروی سجادہ نشین کر رہے ہیں۔